
بیلجیئم میں کام کرنے والے ویغور وکیل اور مصنف، مم تمین علاء کو اپنے رشتہ داروں سے ملے کئی برس بیت چکے ہیں۔ اُن کے دوست بھی اُن 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں میں شامل ہیں جنہیں عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) نے 2017 سے کیمپوں میں نظر بند کر رکھا ہے۔ گو کہ بیرون ملک رہنا علاء کو اپنے دوستوں جیسے انجام سے تو بچاتا ہے مگر اس کی اُنہیں ایک قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اور یہ قیمت اُن کا اپنی جڑوں سے کٹنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنہائی کے احساسات ہیں۔
علاء نے شیئر امریکہ کو بتایا، “ویغور دھیرے دھیرے اپنی بنیادیں کھوتے جا رہے ہیں یعنی اپنے وجود کا مفہوم کھوتے جا رہے ہیں۔ ایک ویغور کی حیثیت سے میں اُس اجتماعی غم اور صدمے کا حصہ ہوں جس کا سامنا چین کے اندر اور چین کے باہر رہنے والے ویغوروں کو کرنا پڑ رہا ہے۔”
علاء نے 2021 میں انگریزی میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ‘ موت سے بدتر: ویغور نسل کشی پر ایک نظر‘ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے پی آر سی میں ویغوروں کے خود مختار علاقے سنکیانگ میں پی آر سی کے مظالم کا ذکر کیا ہے جہاں حکام مسلمان ویغوروں اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے افراد کو مسلسل نشانہ بناتے چلے آ رہے ہیں۔ ان ظالمانہ اقدامات میں بڑے پیمانے پر حراست اور نگرانی، جبری مشقت، اور فنکاروں، دانشوروں اور دیگر لوگوں کو قید کرنا بھی شامل ہے۔
پیچھے چین میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں کے بارے میں یہ نہ جان سکنا کہ آیا وہ محفوظ ہیں یا نہیں، بیرونی ممالک میں رہنے والے بہت سے ویغوروں کو ڈپریشن اور پریشانی سے دوچار کر دیا ہے۔ علاء نے ایک سروے کیا جس کے مطابق 60% سے زیادہ ویغور اکثر و بیشتر تنہائی محسوس کرتے ہیں، اُن کے ذہنوں میں صدمے سے دوچار کر دینے والے واقعات کے بارے میں متواترخیالات آتے رہتے ہیں، اور/یا انہیں نیند میں دشواری پیش آتی ہے۔

علاء کا کہنا ہے کہ کچھ ویغور اپنے لاپتہ رشتہ داروں کے بارے میں ثبوت تلاش کررہے ہیں یا حراست سے اُن کی رہائی کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس خوف سے خاموش رہتے ہیں کہ بولنے سے ان کے رشتہ داروں کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک، وڈرو وِلسن سینٹر نے مارچ میں جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ [پی ڈی ایف، 2.4 ایم بی] میں اِس بات کا ذکر کیا ہے کہ پی آر سی بیرون ملک مقیم ہزاروں ویغوروں کو ڈرا دھمکا چکی ہے اور بعض معاملات میں چین میں رہنے والے اُن کے رشتہ داروں کو بھی دھمکیاں دے چکی ہے۔
ویانا کی میڈیکل یونیورسٹی میں نفسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر تھامس وینزل کہتے ہیں کہ خاندان کے افراد کے بارے میں معلومات کی کمی کی وجہ سے ویغوروں کو “ڈپریشن کی ایک خاص شکل یا خاص تناؤ کے ردعمل” کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وینزیل میونخ یونیورسٹی کے ساتھ مل کر پی آر سی کی سنیکانگ میں جاری نسل کشی کے ویغوروں کی جلاوطنی میں رہنے والی کمیونٹیوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ وینزیل بیرونی ممالک میں رہنے والے ویغوروں کے لیے نفسیاتی پروگرام تیار کرنے میں بھی مدد کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر وینزیل اور علاء دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ سنکیانگ میں پی آر سی کے مظالم بیرون ملک ویغوروں پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور اس صدمے سے نمٹنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔
دیگر ویغور وکلا اور ذہنی تندرستی کے ماہرین بھی مدد فراہم کرنے کے لیے اِن قوتوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
2020 میں امریکہ نے ‘ ویغورں کی بھلائی کے ایک منصوبے’ کا آغاز کیا جس کے تحت ویغوروں کو مشیروں سے جوڑا جاتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق بیلجیئم میں بوسنیائی نسل کشی سے بچ جانے والوں کے ساتھ کام کرنے والے تجربہ کار مشیر ویغوروں کو آن لائن تربیت دے کر اُن کی مدد کر رہے ہیں۔
علاء کا کہنا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ بڑھکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
علاء نے کہا، “ویغوروں کے لیے سب سے پہلے اُس اجتماعی صدمے سے آگاہ ہونا انتہائی اہم ہے جس سے وہ خاموشی اور شدت سے گزر رہے ہیں۔ انہیں اس چیز کے بارے میں بہت زیادہ آگاہی کی ضرورت ہے کہ اجتماعی صدمہ کیا ہوتا ہے اور کسی جاری انسانی بحران کی موجودگی میں اپنی ذاتی دیکھ بھال کیسے کی جاتی ہے۔”